اگر ہم مسلمان شریعت پر سختی سے کاربند ہوجائیں تو کسی کو بھی شریعت میں
مداخلت کی ہمت نہیں ہوگی۔ ہم نے شریعت کی پاسداری ترک کرکے اسلام دشمن
طاقتوں کو یہ موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ شریعت میں مداخلت کریں اور اسلامی
عائلی قوانین کے بالمقابل یکساں سول کوڈ کی بات کریں۔ جمعیۃ علماء
ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے یہ باتیں کل یہاں جمعیۃ علماء
رتنا گیری کے زیراہتمام قومی یکجہتی وتحفظِ شریعت کے عنوان سے منعقدہ
اجلاسِ عام سے کہیں۔ یہاں کے چمپک میدان میں منعقدہ اس اجلاسِ عام سے خطاب
کرتے ہوئے مولانا محمود مدنی نے مزید کہا کہ شریعت کی پابندی میں ہی شریعت
کے مخالفین کا جواب مضمر ہے ، حقیقت یہ ہے کہ آج شریعت میں مداخلت کی کوشش
اس لئے ہورہی ہے کہ مسلمان اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہیں ۔ انہوں
نے کہا کہ اسلام میں جن عوامل سے منع کیا گیا ہے ، مسلمان عمومی طور پر اسی
کے شکار نظر آتے ہیں۔ اگر ہم اسلام پر مکمل طور پر عمل پیرا ہوجائیں تو یہ
نہ صرف ہماری فلاح وبہبود کا ضامن ہوگا بلکہ اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں
کرنے والوں کابھی جواب ہوگا اور ان میں سے کسی کو بھی ہمارے خلاف قانون
بنانے کی ہمت نہیں ہوگی۔
مولانا مدنی نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک مسلمان عورت کواس کے شوہر نے
اسے طلاق دیدیا تو ہندوستا ن کا قانون کہتا ہے کہ طلاق نہیں ہوئی لیکن
اگرمیاں بیوی دونوں دیندار ہیں اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے درمیان
طلاق ہو چکی ہے توپھر دنیا کا کوئی قانون ان دونوں کو ساتھ رہنے پر
مجبورنہیں کر سکے گا۔آج ضرورت ہے دینداری کی،آج ہماری بد دینی کی وجہ سے
لوگوں کواعتراض کا مو قع مل رہا ہے، کیونکہ ہم نے طلاق کے معاملے میں سنت
کو چھوڑ کر بدعت کو اختیار کر لیا ہے۔ مولانا محمود مدنی نے کہا کہ اسلام
اس ملک میں مسلم باد
شاہوں کے دریعہ نہیں آیا اور باد شاہوں کی ذات سے کسی ز
مانے میں اسلام کو کبھی کوئی فائدہ بھی نہیں ہوا ۔ یہی وہ ساحل ہیں جہاں
سے اسلام کا نور پھوٹا ہے۔یہیں پر تاجروں کی کشتیاں اتری تھیں جو راہِ حق
کیطرف بلانے والے تھے۔ آج اللہ نے تو حید کے نور سے ہمارے دلوں کو منور کیا
ہے تویہ اللہ والوں کے ذریعہ سے ہو ا ہے جو بے سرو سامانی کی عالم میں
سمندری راستے سے آئے اور اپنے اعمال و کردار اور اخلاق و تجارت کے ذریعہ
دین اسلام کی اشاعت کا فریضہ انجام دیا۔ انہیں کے ذریعہ اسلام کا نور نہ
صرف ہندوستان بلکہ پورے بر صغیر میں پھیلا۔ان کے اعمال ایسے تھے کہ لوگ ان
کو دیکھتے تھے تو ان کے دلوں میں اسلام سے محبت پیدا ہو جا تی تھی،وہ اگر
کسی سے معاملہ کر لیتے تھے تولوگ ان کی ایمانداری کے دیوانے ہو جا تے تھے
اور جس راستے سے گزر جاتے تھے اللہ تعالی ان کے ذریعہ لاکھوں لوگوں کے دلوں
کو اسلام کی شمع روشن کردیتا تھا ۔ مولانا مدنی نے تعلیم و تربیت کی اہمیت
پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم یہ عہد کریں کہ ہم آدھی روٹی کھائیں گے
لیکن اپنے بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تر بیت دیں گے۔ تعلیم کے ساتھ تر بیت
کا ہونا ضروری ہے ور نہ تعلیم کا مقصد فوت ہو جا تا ہے اور یہ تربیت بغیر
اسلامی تعلیم کے ممکن نہیں ہے۔
جمعیۃ علماء مہا راشٹر کے صدر حافظ محمد ندیم صدیقی نے اپنے صدارتی خطاب
میں تحفظ شریعت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شریعت میں مداخلت کا
معاملہ کوئی نیا نہیں ہے جو مودی نے لا یا ہو۔ بلکہ ایسے ہزاروں مودی پیدا
ہو جائیں اورشریعت میں دخل اندازی کی ناپاک کو شش کریں تو قیامت تک شریعت
میں ذرہ برابر بھی مداخلت نہیں کر سکتے ۔کیونکہ یہ دنیاوی قانون و دستور سے
بالا تر خدائے وحدہ لا شریک کا بنایا ہوا قانون ہے، جس میں تر میم کی کوئی
گنجائش ہی باقی نہیں ہے ۔